آنکھوں سے ملیں آنکھیں، دل دل سے جو ٹکرایا



آنکھوں سے ملیں آنکھیں، دل دل سے جو ٹکرایا

وللہ مزا آیا،

خود اپنی ہی حالت پہ وہ شوخ گھبرایا

وللہ مزا آیا،


پلکیں یوں اٹھیں جیسے چھلکے کوئی پیمانہ،

نظریں جو ملیں جیسے چھیڑے کوئی افسانہ،

سلجھی ہوئی زلفوں نے اس دل کو جو الجھایا،

وللہ مزا آیا،


اب کس کو بتائیں ہم کیا حال ہمارا ہے،

جاتے ہوئے ظالم نے اک تیر سا مارا ہے،

چہرے سے نقاب اس نے چپکے سے جو سرکایا،

وللہ مزا آیا،


دیکھا ہے انھیں جب سے ایک کیف سا چھایا ہے،

فرصت میں انھیں گویا اللہ نے بنایا ہے،

وہ چاند کا ٹکڑا جو کچھ سوچ کے شرمایا،

وللہ مزا آیا

Post a Comment

0 Comments