Wo to na mil saky humain وہ تو نہ مل سکے ہمیں

وہ تو نہ مل سکے ، ہمیں رُسوائیاں مِلیں
وہ تو نہ مل سکے ، ہمیں رُسوائیاں مِلیں
لیکن ہمارے عشق کو رعنائیاں ملیں

آنکھوں میں اُنکی ڈوب کے دیکھا ہے بارہا
جِنکی تھی آرزو ، نہ وہ گہرائیاں ملیں

آئینہ رکھ کے سامنے آواز دی اُسے
اُس کے بغیر جب مجھے تنہائیاں ملیں

آئے تھے وہ نظر مجھے پھولوں کے آس پاس
دیکھا قریب جا کے تو پرچھائیاں ملیں

پُوچھا جو میں نے دل کی تباہی کا ماجرا
ہنس کر جواب میں مجھے انگڑائیاں ملیں

ناصر دل ِ تباہ نہ اُن کو دکھا سکا
ملنے کو بارہا اُسے تنہائیاں ملیں

کلام : حکیم ناصر
آواز : مہدی حسن

Post a Comment

0 Comments