Beqarari si beqarari hay بے قراری سی بے قراری ہے





بے قراری سی بے قراری ہے




بے قراری سی بے قراری ہے

وصل ہے اور فراق طاری ہے

جو گزاری نہ جا سکی ہم سے

ہم نے وہ زندگی گزاری ہے

نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر

اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے

بن تمہارے کبھی نہیں آئی

کیا مری نیند بھی تمہاری ہے

آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن

سانس جو چل رہی ہے آری ہے

اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں

رات دن تیری انتظاری ہے

ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو

ہم ہیں اور اس کی یادگاری ہے

اک مہک سمت دل سے آئی تھی

میں یہ سمجھا تری سواری ہے

حادثوں کا حساب ہے اپنا

ورنہ ہر آن سب کی باری ہے

خوش رہے تو کہ زندگی اپنی

عمر بھر کی امیدواری ہے

جون ایلیا



Post a Comment

0 Comments