Aaj to be sabab udas hy ji





غزل


آج تو بے سبب اداس ہے جی

عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی

جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں

جانے کیا چیز کھو گئی ہے میری

وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر

اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی

چھپتا پھرتا ہے عشق دُنیا سے

پھیلتی جا رہی ہے رُسوائی

ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیاہے

چھوڑ یہ بات نیند اُڑنے لگی

آج تو وہ بھی کچھ خموش سا تھا

میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی

ایک دم اُس کے ہونٹ چُوم لیئے

یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی

ایک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا

جانے کیا بات درمیاں آئی

تو جو اتنا اداس ہے ناصر

تجھے کیا ہوگیا بتا تو سہی


ناصرؔ کاظمی

Post a Comment

0 Comments